یہ سبزہ اور یہ آب رواں اور ابر یہ گہرا
Appearance
یہ سبزہ اور یہ آب رواں اور ابر یہ گہرا
دوانہ نہیں کہ اب گھر میں رہوں میں چھوڑ کر صحرا
اندھیری رات میں مجنوں کو جنگل بیچ کیا ڈر ہے
پپیہا کو کلا کیوں مل کے دے ہیں ہر گھڑی پہرا
گیا تھا رات جھڑ بدلی میں ظالم کس طرف کوں تو
تڑپ سیں دل مرا بجلی کی جوں اب لگ نہیں ٹھہرا
وہ کاکل اس طرح کے ہیں بلا کالے کہ جو دیکھے
تو مر جا ناگ اس کا آب ہو جا خوف سیں زہرا
ایسی کہانی بکٹ ہے عشق کافر کی جو دیکھے
تو روویں نہ فلک اور چشم ہو جاں ان کی نو نہرا
رواں نہیں طبع جس کی شعر تر کی طرز پانے میں
نہیں ہوتا ہے اس کوں آبروؔ کے حرف سیں بہرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |