Jump to content

یہ راز سوز محبت کبھی عیاں نہ ہوا

From Wikisource
یہ راز سوز محبت کبھی عیاں نہ ہوا (1911)
by وفا لکھنوی
305093یہ راز سوز محبت کبھی عیاں نہ ہوا1911وفا لکھنوی

یہ راز سوز محبت کبھی عیاں نہ ہوا
تمام خانۂ دل جل گیا دھواں نہ ہوا

کبھی نہ خانۂ دل میں مرے وہ بت آیا
مکین حیف ہے زینت دہ مکاں نہ ہوا

ہوا میں سوز تپ غم سے جل کے خاکستر
پر اس طرح سے کہ پیدا ذرا دھواں نہ ہوا

نہ بت کدے میں نظر آیا تو نہ کعبے میں
خراب تیرے لئے میں کہاں کہاں نہ ہوا

دوئی کا ہم نے تو دل سے اٹھا دیا پردہ
ہزار پردوں میں پر وہ صنم نہاں نہ ہوا

حباب وار ہے بحر جہاں کے نشوونما
نہ ہو بلا سے اگر قبر کا نشاں نہ ہوا

صفائے قلب سے دیکھا کیا میں جلوۂ حسن
حجاب مانع نظارۂ بتاں نہ ہوا

ملایا خاک میں جس کو فروغ پر دیکھا
ستم شعار کوئی تجھ سا آسماں نہ ہوا

یہ کس کے بار الم نے اسے خمیدہ کیا
جھکا کچھ ایسا کہ سیدھا پھر آسماں نہ ہوا

بغل میں یار پری وش ہو دور ساغر ہو
ہمیں نصیب کسی روز یہ سماں نہ ہوا

بہار میں نہ چلا ضعف سے جنوں کا زور
کہ اپنا پیرہن تن یہ دھجیاں نہ ہوا

اگر کہا تو کہا اس کو نقطۂ موہوم
تیرے دہن پہ دہن کا کسی گماں نہ ہوا

ہوس یہ تھی ہمہ تن صرف شکر حق ہوئے
مرے بدن کا ہر اک رونگٹا زباں نہ ہوا

ہوا ہے سرمۂ چشم بتاں پس مردن
وفاؔ غبار بھی اپنا تو رائیگاں نہ ہوا


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.