یہ راز سوز محبت کبھی عیاں نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ راز سوز محبت کبھی عیاں نہ ہوا  (1911) 
by وفا لکھنوی

یہ راز سوز محبت کبھی عیاں نہ ہوا
تمام خانۂ دل جل گیا دھواں نہ ہوا

کبھی نہ خانۂ دل میں مرے وہ بت آیا
مکین حیف ہے زینت دہ مکاں نہ ہوا

ہوا میں سوز تپ غم سے جل کے خاکستر
پر اس طرح سے کہ پیدا ذرا دھواں نہ ہوا

نہ بت کدے میں نظر آیا تو نہ کعبے میں
خراب تیرے لئے میں کہاں کہاں نہ ہوا

دوئی کا ہم نے تو دل سے اٹھا دیا پردہ
ہزار پردوں میں پر وہ صنم نہاں نہ ہوا

حباب وار ہے بحر جہاں کے نشوونما
نہ ہو بلا سے اگر قبر کا نشاں نہ ہوا

صفائے قلب سے دیکھا کیا میں جلوۂ حسن
حجاب مانع نظارۂ بتاں نہ ہوا

ملایا خاک میں جس کو فروغ پر دیکھا
ستم شعار کوئی تجھ سا آسماں نہ ہوا

یہ کس کے بار الم نے اسے خمیدہ کیا
جھکا کچھ ایسا کہ سیدھا پھر آسماں نہ ہوا

بغل میں یار پری وش ہو دور ساغر ہو
ہمیں نصیب کسی روز یہ سماں نہ ہوا

بہار میں نہ چلا ضعف سے جنوں کا زور
کہ اپنا پیرہن تن یہ دھجیاں نہ ہوا

اگر کہا تو کہا اس کو نقطۂ موہوم
تیرے دہن پہ دہن کا کسی گماں نہ ہوا

ہوس یہ تھی ہمہ تن صرف شکر حق ہوئے
مرے بدن کا ہر اک رونگٹا زباں نہ ہوا

ہوا ہے سرمۂ چشم بتاں پس مردن
وفاؔ غبار بھی اپنا تو رائیگاں نہ ہوا

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse