یہ رات بھیانک ہجر کی ہے کاٹیں گے بڑے آلام سے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ رات بھیانک ہجر کی ہے کاٹیں گے بڑے آلام سے ہم
by شاد عظیم آبادی

یہ رات بھیانک ہجر کی ہے کاٹیں گے بڑے آلام سے ہم
ٹلنے کی نہیں یہ کالی بلا سمجھے ہوئے تھے شام سے ہم

جب قیس پہاڑ اس سر سے ٹلے عید آئی تب آئی جان میں جان
تا دیر عجب عالم میں رہے ہونٹوں کو ملائے جام سے ہم

تھا موت کا کھٹکا جاں فرسا صد شکر کہ نکلا وہ کانٹا
گر ہو نہ قیامت کا دھڑکا اب تو ہیں بڑے آرام سے ہم

تامنزل جاناں ساتھ رہا کم بخت تصور غیروں کا
شوق اپنے قدم کھینچا ہی کیا پلٹا ہی کیے ہر گام سے ہم

الفت نے انہیں کی حق کی طرف پھیرا مرے دل کو شکر خدا
تعمیر کریں مسجد کوئی کیونکر نہ بتوں کے نام سے ہم

اے ہم نفسو دم لینے دو بھولے ہوئے نغمے یاد آ لیں
آئے ہیں چمن میں اڑ کے ابھی چھوٹے ہیں اسی دم دام سے ہم

باتوں میں گزرتے ہجر کے دن اے کاش کہ دونوں مل جاتے
ہم سے ہے دل ناکام خفا آزردہ دل ناکام سے ہم

یوں ان کے ادب یا خاطر سے ہر بات کو لے لیں اپنے سر
جب دل ہے انہیں کے قابو میں پھر پاک ہیں ہر الزام سے ہم

وہ سمجھے کہ ہم نے مار لیا ہم سمجھے ملیں گے آخر وہ
ملتے ہی نگہ کے دونوں خوش آغاز سے وہ انجام سے ہم

دنیا میں تخلص کوئی نہ تھا کیا نیل کا ٹیکا شادؔ ہی تھا
تم وجہ نہ پوچھو کچھ اس کی چڑھ جاتے ہیں کیوں اس نام سے ہم

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse