یہ ذرے جن کو ہم خاک رہ منزل سمجھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ ذرے جن کو ہم خاک رہ منزل سمجھتے ہیں
by جگر مراد آبادی

یہ ذرے جن کو ہم خاک رہ منزل سمجھتے ہیں
زبان حال رکھتے ہیں زبان دل سمجھتے ہیں

جسے سب لوگ حسن و عشق کی منزل سمجھتے ہیں
بلند اس سے بھی ہم اپنا مقام دل سمجھتے ہیں

حقیقت میں جو راز دوری منزل سمجھتے ہیں
انہیں کو ہم سلوک عشق میں کامل سمجھتے ہیں

ہمیں کیوں وہ جفائے خاص کے قابل سمجھتے ہیں
یہ راز دل ہے اس کو محرمان دل سمجھتے ہیں

اسی اک جرم پر اغیار میں برپا قیامت ہے
کہ ہم بیدار ہیں اور اپنا مستقبل سمجھتے ہیں

نگاہوں میں کچھ ایسے بس گئے ہیں حسن کے جلوے
کوئی محفل ہو لیکن ہم تری محفل سمجھتے ہیں

کوئی مانے نہ مانے اس کو لیکن یہ حقیقت ہے
ہم اپنی زندگی میں غیب کو شامل سمجھتے ہیں

یہ نرم و ناتواں موجیں خودی کا راز کیا جانیں
قدم لیتے ہیں طوفاں عظمت ساحل سمجھتے ہیں

حکومت کے مظالم جب سے ان آنکھوں نے دیکھے ہیں
جگرؔ ہم بمبئی کو کوچۂ قاتل سمجھتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse