یہ دھوکا ہو نہ ہو امید ہی معلوم ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ دھوکا ہو نہ ہو امید ہی معلوم ہوتی ہے
by کیفی چریاکوٹی

یہ دھوکا ہو نہ ہو امید ہی معلوم ہوتی ہے
کہ مجھ کو دور سے کچھ روشنی معلوم ہوتی ہے

خدا جانے کس انداز نظر سے تم نے دیکھا ہے
کہ مجھ کو زندگی اب زندگی معلوم ہوتی ہے

اسی کا نام شاید زندگی نے یاس رکھا ہے
نفس کی جو کھٹک ہے آخری معلوم ہوتی ہے

ہوا ہے حسن سے کچھ اور عکس حسن خود داری
خموشی ان کے ہونٹوں پر ہنسی معلوم ہوتی ہے

نہ آیا ہاتھ میرے بڑھ کے جو دامن عنایت کا
یہ محرومی طلب کی کچھ کمی معلوم ہوتی ہے

جھکایا آج در پر اے زہے بخت سرافرازی
تری رحمت قبول بندگی معلوم ہوتی ہے

تجھے اپنے لیے دست کرم یہ جانتا ہوں میں
کہ تو ہے جس قدر دنیا وہی معلوم ہوتی ہے

کہاں ہوں کس طرف ہوں میں خبر اس کی نہیں مجھ کو
یہی گم گشتگی کچھ آگہی معلوم ہوتی ہے

سر موج نفس کشتئ دل کو کیا کہوں کیفیؔ
ابھرتی ہے جہاں تک ڈوبتی معلوم ہوتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse