یہ دل ہی جلوہ گاہ ہے اس خوش خرام کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ دل ہی جلوہ گاہ ہے اس خوش خرام کا
by غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی

یہ دل ہی جلوہ گاہ ہے اس خوش خرام کا
دیکھا تو صرف نام ہے بیت الحرام کا

معنی میں لفظ ایک ہے یہ رب و رام کا
حاصل یہ ہے کہ ہے وہی حاصل کلام کا

دیکھا تو سب حقیقت و معنی میں ایک ہیں
صورت میں گرچہ فرق ہے آپس میں نام کا

اس لا مکاں کا کوئی معین نہیں مکاں
گر ہے تو دل ٹھکانا ہے اس کے مقام کا

مسرور تیری مے سے اک عالم ہے ساقیا
امیدوار میں بھی ہوں دو ایک جام کا

آغاز عشق میں گیا دل ہاتھ سے مرے
انجام کیا ہو دیکھیے اب میرے کام کا

لیتے ہیں چور کرنے کو ہی سنگ دل حضور
کیا ہے وگرنہ شیشۂ دل ان کے کام کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse