یہ دل ناداں ہمارا بھی عجب دیوانہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ دل ناداں ہمارا بھی عجب دیوانہ تھا
by نظیر اکبر آبادی

یہ دل ناداں ہمارا بھی عجب دیوانہ تھا
اس کو اپنا گھر یہ سمجھا تھا جو مہماں خانہ تھا

تھے جو بیگانے یگانے ان کو گنتا تھا بجاں
اس قدر غفلت میں عقل و ہوش سے بیگانہ تھا

لے لیا معنی کو اور صورت کو جانا بے ثبات
غور سے دیکھا تو عالم میں وہی فرزانہ تھا

کیا غم اسباب ظاہر کا نہ ہو جس کو قیام
چشم معنی بیں میں یکساں ہے اگر تھا یا نہ تھا

کہتے ہیں عہد سلف میں تھا کوئی ایسا مکاں
قطعۂ خلد اس کا ایک اک کنج اور کاشانہ تھا

پر صفا و پر ضیا و پر نگار و پر بہار
زیب سے سو سو طرح اس میں جو شاخ اور شانہ تھا

لحظہ لحظہ عیش و عشرت دم بدم رقص و سرور
گریۂ مینا و یکسر خندۂ پیمانہ تھا

مالک اس کا جب وہ پشت بام پر پھرتا تھا شاد
کیا کہوں کیا کیا اسے ناز سر افرازانہ تھا

تھا جہاں یہ کچھ عیاں واں انقلاب دور سے
یک مژہ برہم زدن میں کچھ نہ تھا ویرانہ تھا

واں طینیس یک مگس آئے نہ ہرگز گوش میں
جس جگہ شور قیامت ساز نوبت خانہ تھا

واں نظر آیا نہ ہرگز پارۂ سنگ سیاہ
جس جگہ لعل و گہر سے پر جواہر خانہ تھا

خوب جو دیکھا نظیرؔ ان رفتگاں کا ماجرا
بہر خوف و عبرت آئندگاں افسانہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse