یہ دلجمعی جئے جب تک جئے جینا اسی کا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ دلجمعی جئے جب تک جئے جینا اسی کا ہے
by شاد عظیم آبادی

یہ دلجمعی جئے جب تک جئے جینا اسی کا ہے
پئے جو سیر ہو کے رات دن پینا اسی کا ہے

نگہ کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

تصور اس رخ صافی کا رکھ مد نظر ناداں
لگائے منہ جو آئینے کو آئینہ اسی کا ہے

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

کدر ہو یا کہ صافی سب کو پی کر مست ہو جائے
یہ ہم رندوں کا پینا کچھ نہیں پینا اسی کا ہے

تماشا دیکھنا غیروں کے گھر کو پھونک کر کیسا
جو اپنی آگ میں جل جائے خود کینہ اسی کا ہے

فضائے دہر میں یہ سیر گہ جس نے بنا دی ہے
تماشائی جہاں میں دیدۂ بینا اسی کا ہے

بسر ہو میکدے میں پنج شنبہ بیٹھ کر جس کا
جو مے نوشی میں کر دے صبح آدینہ اسی کا ہے

امیدیں جب بڑھیں حد سے طلسمی سانپ ہیں ناصح
جو توڑے یہ طلسم اے دوست گنجینہ اسی کا ہے

مبارک ہیں یہ سب راتیں جو پینے میں کٹیں رندو
گزارے یوں جو شب ہفتے کی آدینہ اسی کا ہے

خدا لگتی کہے اے شادؔ جو اس پیر کے حق میں
یقیں سمجھو دعا گو بھی یہ دیرینہ اسی کا ہے

کدورت سے دل اپنا صاف رکھو شادؔ پیری ہے
کہ جس کو منہ دکھانا ہے یہ آئینہ اسی کا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse