یہ داستان دل ہے کیا ہو ادا زباں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ داستان دل ہے کیا ہو ادا زباں سے
by آرزو لکھنوی

یہ داستان دل ہے کیا ہو ادا زباں سے
آنسو ٹپک رہے ہیں لفظیں ملیں کہاں سے

ہے ربط دو دلوں کو بے ربطیٔ بیاں سے
کچھ وہ کہیں نظر سے کچھ ہم کہیں زباں سے

یہ روتے روتے ہنسنا ترتیب ذکر غم ہے
آیا ہوں ابتدا پر چھیڑا تھا درمیاں سے

حاصل تو زندگی کا تھی زندگی یہیں کی
اب میں ہوں اک جنازہ اٹھوا دو آستاں سے

اس طول خامشی کا زور بیاں بھی دیکھا
تھی بات میرے دل کی نکلی تری زباں سے

جب حسن خود نما ہے اور عشق رخنہ افگن
اس کشمکش میں پردہ نکلے گا درمیاں سے

میدان امتحان میں اے بے غرض محبت
دل کی زمین تو نے ٹکرا دی آسماں سے

اس رازدار غم کی حالت نہ پوچھ جس کو
کہنا تو ہے بہت کچھ محروم ہے زباں سے

اے جذب شوق منزل ممنون غیر کیوں ہوں
خود راستہ بدل کر بچھڑا ہوں کارواں سے

ہر گام پر ٹھٹھکنا ہر بار مڑ کے تکنا
او مسکرانے والے کیا لے چلا یہاں سے

ظاہر فریب وعدہ پھر اعتبار اتنا
وہ لکھ گیا دلوں پر جو کہہ دیا زباں سے

آنکھوں سے باغباں کی شعلے نکلے رہے ہیں
تنکے دبائے منہ میں نکلا ہوں آشیاں سے

دل کا سکوں گنوا کر ہوں آرزو پشیماں
کچھ لے کے رکھ نہ چھوڑا کیوں جنس رائیگاں سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse