یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبھک رہا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبھک رہا ہے
by نظیر اکبر آبادی

یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبھک رہا ہے
فلک پہ سورج بھی تھرتھرا کر منہ اس کا حیرت سے تک رہا ہے

کھجوری چوٹی ادا میں موٹی جفا میں لمبی وفا میں چھوٹی
ہے ایسی کھوٹی کہ دل ہر اک کا ہر ایک لٹ میں لٹک رہا ہے

وہ نیچی کافر سیاہ پٹی کہ دل کے زخموں پہ باندھے پٹی
پڑھی ہے جس نے کہ اس کی پٹی وہ پٹی سے سر ٹپک رہا ہے

وہ ماتھا ایسا کہ چاند نکھرے پھر اس کے اوپر وہ بال بکھرے
دل اس کے دیکھے سے کیوں نہ بکھرے کہ مثل سورج چمک رہا ہے

وہ چین خود رو کٹیلے ابرو وہ چشم جادو نگاہیں آہو
وہ پلکیں کج خو کہ جن کا ہر مو جگر کے اندر کھٹک رہا ہے

غضب وہ چنچل کی شوخ بینی پھر اس پہ نتھنوں کی نکتہ چینی
پھر اس پہ نتھ کی وہ ہم نشینی پھر اس پہ موتی پھڑک رہا ہے

لب و دہاں بھی وہ نرم و نازک مسی و پاں بھی وہ قہر و آفت
سخن بھی کرنے کی وہ لطافت کہ گویا موتی ٹپک رہا ہے

وہ کان خوبی میں چھک رہے ہیں جواہروں میں جھمک رہے ہیں
ادھر کو جھمکے جھمک رہے ہیں ادھر کا بالا چمک رہا ہے

صراحی گردن وہ آبگینہ پھر آگے سینہ بھی جوں نگینہ
بھرا ہے جس میں تمام کینہ کہ جوں نگینہ دمک رہا ہے

کچیں وہ کچھ کچھ ثمر درختی کچھ ان کی سختی وہ کچھ کرختی
ہیں جس نے دیکھے وہ پھل درختی کلیجہ اس کا دھڑک رہا ہے

وہ سرخ انگیا جو کس رہی ہے وہ چس رہی ہے اکس رہی ہے
کچھ ایسے ڈھب سے وہ کس رہی ہے کہ اس کا کسنا کسک رہا ہے

وہ پیٹ دل کو لپیٹ لیوے وہ ناف جی کو سمیٹ لیوے
مزار جی کا جھپیٹ لیوے کچھ ایسا پیڑو پھڑک رہا ہے

وہ پیٹھ گوری کمر وہ پتلی غضب لگاوٹ وہ پھر سرین کی
اب آگے کہئے تو کیا کہوں میں کہ ہوش اس جا ٹھٹک رہا ہے

فقط وہ چمپے کی اک کلی ہے کچھ اک مندی ہے کچھ اک کھلی ہے
سلاخ سونے کی اک ڈلی ہے کہ گویا کندن دمک رہا ہے

وہ پیاری رانیں وہ گول ساقیں وہ کف ملائم وہ نرم پہنچے
کڑی کڑی سے کھڑک رہی ہے کڑا کڑے سے کھڑک رہا ہے

نظیرؔ خوبی میں اس پری کی کہوں کہاں تک ثنا بنا کر
صفت سراپا میں جس کے لکھنے دل اب اسی سے اٹک رہا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse