یہ حسب عقل تو کوئی نہیں سامان ملنے کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ حسب عقل تو کوئی نہیں سامان ملنے کا
by نظیر اکبر آبادی

یہ حسب عقل تو کوئی نہیں سامان ملنے کا
مگر دنیا سے لے جاویں گے ہم ارمان ملنے کا

عجب مشکل ہے کیا کہئے بغیر از جان دینے کے
کوئی نقشہ نظر آتا نہیں آسان ملنے کا

ہمیں تو خاک میں جا کر بھی کیا کیا بے کلی ہوگی
جب آ جاوے گا اس غنچہ دہن سے دھیان ملنے کا

کسی سے ملنے آئے تھے سو یاں بھی ہو چلے اک دم
کہے دیتا ہوں یہ مجھ پر نہیں احسان ملنے کا

نظیرؔ اک عمر ہم اس دل ربا کے وصل کی خاطر
بہت روئے بہت چیخے پہ کیا امکان ملنے کا

ہماری بے قراری اضطرابی کچھ نہ کام آئی
وہ خود ہی آ ملا جب وقت آیا آن ملنے کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse