یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
by میر مہدی مجروح

یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
لاکھ فتنے اٹھائے بیٹھے ہیں

وہ نہیں ہیں تو درد کو ان کے
سینے سے ہم لگائے بیٹھے ہیں

یہ بھی کچھ جی میں آ گئی ہوگی
کیا وہ میرے بٹھائے بیٹھے ہیں

تذکرہ وصل کا نہیں خالی
وہ بھی کچھ لطف پائے بیٹھے ہیں

مجھ کو مارا ہے پر خجالت سے
وہ بھی گردن جھکائے بیٹھے ہیں

رنگ جمتا ہے یاں نہ آنے کا
یعنی مہندی لگائے بیٹھے ہیں

مجھ کو محفل میں دیکھ کر بولے
آپ یاں کیوں کہ آئے بیٹھے ہیں

خیر ہو ہیں بگاڑ کے آثار
کچھ وہ منہ کو بنائے بیٹھے ہیں

غم ہمیں کھا رہا ہے تو کیا غم
ہم بھی تو غم کو کھائے بیٹھے ہیں

زد میں گر ہے عدو تو ہو وہ تو
گھات مجھ پر لگائے بیٹھے ہیں

کھوئے جانے کا اپنے دھیان نہیں
کچھ تو ایسا ہی پائے بیٹھے ہیں

شرم سے ہیں وہ لاکھ پردے میں
گو مرے پاس آئے بیٹھے ہیں

شمع ساں گو گھلے ہی جاتے ہیں
اس سے پر لو لگائے بیٹھے ہیں

اس گلی میں بسان نقش قدم
ہم بھی پاؤں جمائے بیٹھے ہیں

ہو نہ اے شمع حسن پر نازاں
وہ بھی محفل میں آئے بیٹھے ہیں

شوخیاں خود ہیں پردہ در ان کی
کیوں وہ منہ کو چھپائے بیٹھے ہیں

فرد باطل سمجھ کے دنیا کو
نقش ہستی مٹائے بیٹھے ہیں

کیا ہے اس خوش خرام کی آمد
فتنے جو جائے جائے بیٹھے ہیں

طور جس آگ نے جلایا تھا
ہم وہ دل میں چھپائے بیٹھے ہیں

چشمکیں غیر سے دکھا دیں گے
ہم بھی آنکھیں لڑائے بیٹھے ہیں

کل تقدس مآب مسجد تھے
آج رندوں میں آئے بیٹھے ہیں

لاابالی خرام ہے مجروحؔ
وضع کیسی بنائے بیٹھے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse