یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں
by جلیل مانکپوری

یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں
جان کتنوں کی لیے بیٹھے ہیں

جان ہم سبزۂ خط پر دے کر
زہر کے گھونٹ پیے بیٹھے ہیں

دل کو ہم ڈھونڈتے ہیں چار طرف
اور یہاں آپ لیے بیٹھے ہیں

واعظو چھیڑو نہ رندوں کو بہت
یہ سمجھ لو کہ پیے بیٹھے ہیں

گوشے آنچل کے ترے سینے پر
ہائے کیا چیز لیے بیٹھے ہیں

دست وحشت کو خبر کر دے کوئی
ہم گریبان سیئے بیٹھے ہیں

ہائے پوچھو نہ تصور کے مزے
گود میں تم کو لیے بیٹھے ہیں

آپ کے ناز اٹھانے والے
جان کو صبر کیے بیٹھے ہیں

بل جبیں پر ہے خدا خیر کرے
آج وہ تیغ لیے بیٹھے ہیں

اس توقع پہ کہ لیں وہ تلوار
سر ہتھیلی پہ لیے بیٹھے ہیں

جان دے دیں گے تمہارے در پر
ہم اب اٹھنے کے لئے بیٹھے ہیں

ذکر کیا جام و سبو کا کہ جلیلؔ
ایک مے خانہ پیے بیٹھے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse