یہ جو اٹھتی کونپل ہے جب اپنا برگ نکالے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ جو اٹھتی کونپل ہے جب اپنا برگ نکالے گی
by نظیر اکبر آبادی

یہ جو اٹھتی کونپل ہے جب اپنا برگ نکالے گی
ڈالی ڈالی چاٹے گی اور پتا پتا کھا لے گی

ہونہار بروا کے پتے چکنے چکنے ہوتے ہیں
بہت نہیں کچھ تھوڑے ہی دن میں بیل پھنگ کو آلے گی

ابھی تو کیا ہے چھٹپن ہے نادانی ہے بے ہوشی ہے
قہر تو اس دن ہووے گا جب اپنا ہوش سنبھالے گی

ناز ادا اور غمزوں کے کچھ اور ہی کترے گی گل پھول
سین لگاوٹ چتون کا بھی اور ہی عطر نکالے گی

کاجل مہندی پان مسی اور کنگھی چوٹی میں ہر آن
کیا کیا رنگ بناویگی اور کیا کیا نقشے ڈھالے گی

جب یہ تن گدراوے گا اور بازو بانہیں ہوں گے گول
اس دم دیکھا چاہئے کیا کیا پیٹ کے پاؤں نکالے گی

کس کس کا دل دھڑکے گا اور کون ملے گا ہاتھوں کو
پکیں سے جب انگیا میں یہ کچے سیب اچھالے گی

پان چبا اور آئینے میں دیکھ کے اپنے ہونٹوں کو
کیا کیا ہنس ہنس دیوے گی اور کیا کیا دیکھے بھالے گی

خانہ جنگیاں ہوویں گی اور لوگ مریں گے کٹ کٹ کر
شہر کے کوچے گلیوں میں اک شور قیامت ڈالے گی

جب یہ میوہ حسن کا رس رس پک کر ہووے گا تیار
نائکہ اس کی قیمت کا جب دیکھا چاہئے کیا لے گی

سونا روپا سیم و جواہر صبر و دل و دیں ہوش و قرار
آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہی ایک آن میں سب رکھوا لے گی

اپنے وقت جوانی میں یہ شوخ خدا ہی جانے نظیرؔ
کس کس کا زر لوٹے گی اور کس کس کا گھر گھالے گی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse