Jump to content

یہ جسم زار ہے یوں پیرہن کے پردے میں

From Wikisource
یہ جسم زار ہے یوں پیرہن کے پردے میں
by بخش ناسخ
315767یہ جسم زار ہے یوں پیرہن کے پردے میںبخش ناسخ

یہ جسم زار ہے یوں پیرہن کے پردے میں
کہ جیسے روح نہاں ہے بدن کے پردے میں

سوائے اہل سخن ہو مشاہدہ کس کو
نہاں ہے شاہد معنی سخن کے پردے میں

تلاش جس کی ہے دن رات تجھ کو اے غافل
چھپا ہوا ہے وہ تیرے ہی تن کے پردے میں

جو عندلیب کی آنکھوں سے دیکھے وہ سمجھے
ظہور ہے اسی گل کا چمن کے پردے میں

شب سیاہ جدائی میں روشنی ہو کہیں
لگاؤں آگ میں بیت الحزن کے پردے میں

طریق عشق چھڑایا ہے تو نے غارت گر
ملا ہے خضر مجھے راہزن کے پردے میں

لطافت ایسی ہے تجھ میں کہ دیکھتا ہوں صاف
گہر سے دانت ہیں درج دہن کے پردے میں

برنگ زر کوئی کپڑوں میں آگ رہتی ہے
نہ میرے داغ چھپیں گے کفن کے پردے میں

نقاب سے ترے ابرو جو سلخ کو کھل جائیں
تو ماہ نور ہے چرخ کہن کے پردے میں

اگر تم آئے تھے شیریں کے بھیس میں صاحب
تو ساتھ بندہ بھی تھا کوہ کن کے پردے میں

نمود ہو نہ ترے خط عنبر افشاں کی
رہے وہ جلد عذار و ذقن کے پردے میں

چمن میں لائی صبا کس کی بو جو آج شمیم
دمک رہی ہے گل یاسمن کے پردے میں

نظر سے تھا شرر سنگ کی طرح جو نہاں
وہ بت ملا مجھے اک بت شکن کے پردے میں

تمہارے روئے مخطط کا منہ چڑھاتے ہیں
یہ مہر و ماہ پری رو گہن کے پردے میں

ہزاروں پڑ گئے تیر نگاہ سے سوراخ
ہمارے اس بت ناوک فگن کے پردے میں

خبر نہ شام غریبی کی مجھ کو تھی ناسخؔ
چھپی ہوئی تھی یہ صبح وطن کے پردے میں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.