یہ جتنی دیر ہوئی شیخ کو وضو کرتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ جتنی دیر ہوئی شیخ کو وضو کرتے
by ریاض خیرآبادی

یہ جتنی دیر ہوئی شیخ کو وضو کرتے
ہم اتنی دیر میں خالی خم و سبو کرتے

شکار بھی بط مے کا کنار جو کرتے
وہیں نماز بھی پڑھتے وہیں وضو کرتے

کلیم بات بڑھاتے نہ گفتگو کرتے
لب خموش سے اظہار آرزو کرتے

حسین بھی ہوں خوش آواز بھی فرشتہ قبر
کٹی ہے عمر حسینوں سے گفتگو کرتے

ہماری بھول کا ساگر یہ گل اگر بنتے
تو اور رنگ سے اظہار رنگ و بو کرتے

گراتے یوں ہی سر طور بجلیاں ہم پر
اگر حجاب تھا پردے سے گفتگو کرتے

یہ داغ مے ہیں برے پھیلتے سر دامن
جو آب زمزم و کوثر سے ہم وضو کرتے

ہمیں خدا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا
نکل گئے ہیں بہت دور جستجو کرتے

پڑی ہے خوئے صبوحی دراز ہے شب گور
اٹھیں گے حشر کے دن ہم سبو سبو کرتے

مسک گیا ہے کسی کا ذرا سا دامن گل
جگہ جگہ سے سسکتا جو تم رفو کرتے

بقدر ظرف وضو مے جو ملتی پانی سی
سیاہ رو بھی دم حشر شست و شو کرتے

نہ تھا شباب کمر میں ریاضؔ زر ہوتا
تو دن بڑھاپے کے بھی نذر لکھنٔو کرتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse