یہ تو معلوم کہ پھر آئیے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ تو معلوم کہ پھر آئیے گا
by سخی لکھنوی

یہ تو معلوم کہ پھر آئیے گا
بیٹھیے آج کہاں جائیے گا

مرقد کشتہ پہ جب آئیے گا
دل میں کچھ سوچ کے پچھتائیے گا

ہم تو سمجھے تھے کہ جلد آئیے گا
خیر اب پوچھ کے گھر جائیے گا

غیر کو بوسے دہن کے کیسے
کچھ مرا منہ تو نہ کھلوائیے گا

میرے کہنے میں نہیں ہے دل زار
آپ ہی کچھ اسے سمجھائیے گا

اب تو چوسے لب شیریں ہم نے
لو ہمیں گھول کے پی جائیے گا

دولت وصل ہے قیمت دل کی
آگے کچھ آپ بھی فرمائیے گا

جمع خاطر رہیے اے اہل قبور
ہم بھی آتے ہیں نہ گھبرائیے گا

وصف لکھتے ہیں لب شیریں کے
کچھ مٹھائی ہمیں کھلوائیے گا

نزع میں پاس مرے کیوں بیٹھے
اٹھیے اٹھیے نہیں گھبرائیے گا

صدمۂ ہجر میں تکلیف کریں
ملک الموت سے فرمائیے گا

آپ پر مرنے سے حاصل کیا ہے
فاتحہ بھی تو نہ دلوائیے گا

شیخ جی بت کی برائی کیجے
اپنے اللہ سے بھرپائیے گا

کعبہ میں سخت کلامی سن لی
بت کدہ میں نہ کبھی آئیے گا

بوسے للہ سخیؔ مانگتا ہے
ایک دیجے گا تو دس پائیے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse