یہ تو سچ ہے کہ صفیؔ کی نہیں نیت اچھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ تو سچ ہے کہ صفیؔ کی نہیں نیت اچھی
by صفی اورنگ آبادی

یہ تو سچ ہے کہ صفیؔ کی نہیں نیت اچھی
ہاں مگر پائی ہے ظالم نے طبیعت اچھی

کیا ہوا آپ نے پائی ہے جو صورت اچھی
آدمی وہ ہے کہ جس کی ہو طبیعت اچھی

آج وہ پوچھنے آئے ہیں ہمارا مطلب
سن لیا تھا کہیں مطلب کی محبت اچھی

خوب صورت ہے وہی جس پہ زمانہ ریجھے
یوں تو ہر ایک کو ہے اپنی ہی صورت اچھی

کچھ بھی ہو ایک تمنا تو بندھی رہتی ہے
تجھ سے سو درجہ ترے ملنے کی حسرت اچھی

نہیں اپنے میں کوئی چاہنے والا تیرا
ڈال دی ڈالنے والوں نے عداوت اچھی

کوئی ارمان نہیں ہے تو فقط بیتابی
وصل سے تیرے ستم گر تری فرقت اچھی

ان کے آتے ہی بدل جاتے ہیں تیرے تیور
اے صفیؔ چاہیے انسان کی نیت اچھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse