یہ تماشا گہ عالم کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ تماشا گہ عالم کیا ہے
by تصدق حسین خالد

تم چمن زاد ہو فطرت کے قریں رہتے ہو
دل یہ کہتا ہے کہ تم محرم اسرار بھی ہو
تمہیں فطرت کی بہاروں کی قسم
یہ تماشا گہ عالم کیا ہے

نور خورشید کا جاں سوز جہاں تاب جمال
آسمانوں پہ ستاروں کا سبک کام خرام
یہ گرجتے ہوئے بادل
یہ سمندر کا خروش
یہ پرندوں کے سہانے نغمے
کہیں بڑھتی ہوئی عظمت کہیں لٹتا ہوا حسن
بے سبب بخل فراواں بخشی
قحط آلام مصائب کے پہاڑ
عیش کے خسروی و طنطنۂ فغفوری
کہیں پرویز کے حیلے کہیں چنگیز کے ظلم
کہیں شبیری و ابراہیمی
راز ہی راز ہے حیرت کدۂ بزم نمود
تم چمن زاد ہو فطرت کے قریں رہتے ہو
یہ تماشا گہ عالم کیا ہے

نور مہتاب کی چادر لے کر
گھاس سوتی ہی رہی
پھول لب بند رہے
پیڑ رہے محو سکوت
تند رو باد شمالی کا تریڑا آیا
پھول تیورا سے گئے
پیڑ ہوئے سر بہ سجود
گھاس نے چادر مہتاب میں کروٹ بدلی
یہ تماشا گہ عالم کیا ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse