یہ بھی کوئی وضع آنے کی ہے جو آتے ہو تم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ بھی کوئی وضع آنے کی ہے جو آتے ہو تم
by میر محمدی بیدار

یہ بھی کوئی وضع آنے کی ہے جو آتے ہو تم
ایک دم آئے نہیں گزرا کہ پھر جاتے ہو تم

دور سے یوں تو کوئی جھمکی دکھا جاتے ہو تم
پر جو چاہوں یہ کہ پاس آؤ کہاں آتے ہو تم

کہیے مجھ سے تو بھلا اتنا کہ کچھ میں بھی سنوں
بندہ پرور کس کے ہاں تشریف فرماتے ہو تم

اس پری صورت بلا انگیز کو دیکھا نہیں
ناصحو معذور ہو گر مجھ کو سمجھاتے ہو تم

دیکھیے خرمن پہ یہ برق بلا کس کے پڑے
بے طرح کچھ تیوری بدلے چلے آتے ہو تم

جو کوئی بندہ ہو اپنا اس سے پھر کیا ہے حجاب
میں تو اس لائق نہیں جو مجھ سے شرماتے ہو تم

آج یہ گو اور یہ میداں انہیں کہہ دیجئے
دیکھ لوں جن کے بھروسے مجھ کو دھمکاتے ہو تم

پھر نہ آویں گے کبھی ایسی ہی گر آزردہ ہو
بس چلے ہم خوش رہو کاہے کو جھنجلاتے ہو تم

حالت بیدارؔ اب کیا کیجئے آپ آگے بیاں
وقت ہے اب بھی اگر تشریف فرماتے ہو تم


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.