یہ بلا میرے سر چڑھی ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ بلا میرے سر چڑھی ہی نہیں
by ریاض خیرآبادی

یہ بلا میرے سر چڑھی ہی نہیں
میں نے کچے گھڑے کی پی ہی نہیں

آگ ایسی کبھی لگی ہی نہیں
کہ لگی دل کی پھر بجھی ہی نہیں

پی بھی یوں جیسے میں نے پی ہی نہیں
منہ سے میرے کبھی لگی ہی نہیں

دل نہ جب تک ہوا شریک حنا
مہندی ان کی کبھی پسی ہی نہیں

شکن زلف حلقۂ گیسو
بیڑیاں بھی ہیں ہتھکڑی ہی نہیں

کون لیتا بلائیں پیکاں کی
آرزو کوئی دل میں تھی ہی نہیں

کس قدر ہوں بنا ہوا میں بھی
جیسے میں نے شراب پی ہی نہیں

دل میں کیا آئے کیا چلے دل سے
تم نے چٹکی تو کوئی لی ہی نہیں

صبح کا جھٹپٹا تھا شام نہ تھی
وصل کی رات رات تھی ہی نہیں

کیوں سنے شیخ قلقل مینا
اس نے ایسی کبھی سنی ہی نہیں

آئے آنے کو فصل گل سو بار
میرے دل کی کلی کھلی ہی نہیں

ہائے سبزے میں وہ سیہ بوتل
کبھی ایسی گھٹا اٹھی ہی نہیں

لاگ بھی دل سے ہے لگاؤ کے ساتھ
دشمنی بھی ہے دوستی ہی نہیں

منہ لگانا مرا اک آفت تھا
خم میں وہ چیز جیسے تھی ہی نہیں

بزم آرائے حشر کے صدقے
محفل ایسی کبھی جمی ہی نہیں

کچھ مزے میں ہم آ گئے ایسے
توبہ پینے سے ہم نے کی ہی نہیں

کوئی نا خوش ریاضؔ سے کیوں ہو
اس روش کا وہ آدمی ہی نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse