یہ بات بات میں کیا نازکی نکلتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ بات بات میں کیا نازکی نکلتی ہے
by داغ دہلوی

یہ بات بات میں کیا نازکی نکلتی ہے
دبی دبی ترے لب سے ہنسی نکلتی ہے

ٹھہر ٹھہر کے جلا دل کو ایک بار نہ پھونک
کہ اس میں بوئے محبت ابھی نکلتی ہے

بجائے شکوہ بھی دیتا ہوں میں دعا اس کو
مری زباں سے کروں کیا یہی نکلتی ہے

خوشی میں ہم نے یہ شوخی کبھی نہیں دیکھی
دم عتاب جو رنگت تری نکلتی ہے

ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا حاصل
دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے

ادا سے تیری مگر کھنچ رہیں ہیں تلواریں
نگہ نگہ سے چھری پر چھری نکلتی ہے

محیط عشق میں ہے کیا امید و بیم مجھے
کہ ڈوب ڈوب کے کشتی مری نکلتی ہے

جھلک رہی ہے سر شاخ مژہ خون کی بوند
شجر میں پہلے ثمر سے کلی نکلتی ہے

شب فراق جو کھولے ہیں ہم نے زخم جگر
یہ انتظار ہے کب چاندنی نکلتی ہے

سمجھ تو لیجئے کہنے تو دیجئے مطلب
بیاں سے پہلے ہی مجھ پر چھری نکلتی ہے

یہ دل کی آگ ہے یا دل کے نور کا ہے ظہور
نفس نفس میں مرے روشنی نکلتی ہے

کہا جو میں نے کہ مر جاؤں گا تو کہتے ہیں
ہمارے زائچے میں زندگی نکلتی ہے

سمجھنے والے سمجھتے ہیں پیچ کی تقریر
کہ کچھ نہ کچھ تری باتوں میں فی نکلتی ہے

دم اخیر تصور ہے کس پری وش کا
کہ میری روح بھی بن کر پری نکلتی ہے

صنم کدے میں بھی ہے حسن اک خدائی کا
کہ جو نکلتی ہے صورت پری نکلتی ہے

مرے نکالے نہ نکلے گی آرزو میری
جو تم نکالنا چاہو ابھی نکلتی ہے

غم فراق میں ہو داغؔ اس قدر بیتاب
ذرا سے رنج میں جاں آپ کی نکلتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse