یہ باؤ کیا پھری کہ تری لٹ پلٹ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ باؤ کیا پھری کہ تری لٹ پلٹ گئی
by شاہ مبارک آبرو

یہ باؤ کیا پھری کہ تری لٹ پلٹ گئی
ناگن کی بھانت ڈس کے مرا دل الٹ گئی

بیکل ہوا ہوں اب تو تری زلف میں سجن
شب ہے دراز نیند ہماری اچٹ گئی

نادان تو نیں غیر کوں کیوں درمیاں دیا
الفت تری کی ڈور اسی مانجھے سیں کٹ گئی

مجھ باؤلے کا شور اٹھا دیکھ کر کے فوج
بادل کی بھانت ڈر سیں رقیباں کی پھٹ گئی

توڑی پریت ہم سیں پیارے نے آبروؔ
لاگی تو تھی یہ بیل پہ آخر اوکھٹ گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse