یہ اک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ اک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے
by گویا فقیر محمد

یہ اک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے
نظر جس طرف کیجیے تو ہی تو ہے

یہ کس مست کے آنے کی آرزو ہے
کہ دست دعا آج دست سبو ہے

نہ ہوگا کوئی مجھ سا محو تصور
جسے دیکھتا ہوں سمجھتا ہوں تو ہے

مکدر نہ ہو یار تو صاف کہہ دوں
نہ کیونکر ہو خودبیں کہ آئینہ رو ہے

کبھی رخ کی باتیں کبھی گیسوؤں کی
سحر سے یہی شام تک گفتگو ہے

کسی گل کے کوچے سے گزری ہے شاید
صبا آج جو تجھ میں پھولوں کی بو ہے

نہیں چاک دامن کوئی مجھ سا گویاؔ
نہ بخیہ کی خواہش نہ فکر رفو ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.