یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے
by محمد ابراہیم ذوق

یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے
زندگی موت کے آنے کی خبر دیتی ہے

زال دنیا ہے عجب طرح کی علامۂ دہر
مرد دیں دار کو بھی دہریہ کر دیتی ہے

بڑھتی جاتی ہے جو مشق ستم اس ظالم کی
کچھ محبت مری اصلاح مگر دیتی ہے

فائدہ دے ترے بیمار کو کیا خاک دوا
اب تو اکسیر بھی دیجے تو ضرر دیتی ہے

شمع گھبرا نہ شب غم سے کہ کوئی دم میں
تجھ کو کافور سفیدی سحر دیتی ہے

غنچہ ہنستا ہے ترے آگے جو گستاخی سے
چٹخنا منہ پہ وہیں باد سحر دیتی ہے

شمع بھی کم نہیں کچھ عشق میں پروانے سے
جان دیتا ہے اگر وہ تو یہ سر دیتی ہے

دم بہ دم زخم پہ اک زخم ہے دم لینے کی
مجھ کو فرصت نہیں وہ تیغ نظر دیتی ہے

کہتے سنتے نہیں کچھ ہم تو شب ہجر میں پر
نالۂ دل کا جواب آہ جگر دیتی ہے

تیرہ بختی مری کرتی ہے پریشاں مجھ کو
تہمت اس زلف سیہ فام پہ دھر دیتی ہے

نخل مژگاں سے ہے کیا جانیے کیا چشم ثمر
چشم پانی کی جگہ خون جگر دیتی ہے

دیتی شربت ہے کسے زہر بھری آنکھ تری
عین احسان ہے وہ زہر بھی گر دیتی ہے

کوئی غماز نہیں میری طرف سے اے ذوقؔ
کان اس کے مری فریاد ہی بھر دیتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse