یہ آہ پردہ در ایسی ہوئی عدو میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ آہ پردہ در ایسی ہوئی عدو میری
by ثاقب لکھنوی

یہ آہ پردہ در ایسی ہوئی عدو میری
حباب ہو گئی آخر کو آبرو میری

نہ اپنی خود غرضی ہے نہ ہی شکایت دوست
ہے عشق و حسن کے مابین گفتگو میری

کوئی نکلنے نہ دے گا زمین ہو کہ فلک
زمانے بھر کے مقابل ہے آرزو میری

قنا کے بعد میں دیتا نہیں کسی کو جواب
صفت تھی آپ کی جو اب ہوئی وہ خوں میری

زباں ہلے نہ ہلے دل ہلے تو کام چلے
یہ زلزلہ ہو تو آ جائے گفتگو میری

بھلا دیا مجھے تو نے تجھے میں کھو بیٹھا
نہ میں ترا ہوا اے زندگی نہ تو میری

مجھے زمانے سے شکوہ نہیں کہ بے حس ہے
سمجھنے والے سمجھتے ہیں گفتگو میری

مرے کریم مری شرم حشر میں رکھ لے
عرق کے ساتھ ٹپکتی ہے آبرو میری

یہ ایک وادیٔ پر خار عشق تھی ثاقبؔ
الجھ کے رہ گئی ہر دل میں گفتگو میری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse