یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو
by نظم طباطبائی

یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو
نہ ہو جب درد ہی یا رب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو

بغل گیر آرزو سے ہیں مرادیں آرزو مجھ سے
یہاں اس وقت تو اک عید ہے تم جلوہ گر کیا ہو

مقدر میں یہ لکھا ہے کٹے گی عمر مر مر کر
ابھی سے مر گئے ہم دیکھیے اب عمر بھر کیا ہو

مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں
یہ سچ ہے نازنیں ہو خوبصورت ہو مگر کیا ہو

لگا کر زخم میں ٹانکے قضا تیری نہ آ جائے
جو وہ سفاک سن پائے بتا اے چارہ گر کیا ہو

قیامت کے بکھیڑے پڑ گئے آتے ہی دنیا میں
یہ مانا ہم نے مر جانا تو ممکن ہے مگر کیا ہو

کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں
کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse