یہ آنکھیں کھلیں جب سے کیا کیا نہ دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ آنکھیں کھلیں جب سے کیا کیا نہ دیکھا
by شہیر مچھلی شہری

یہ آنکھیں کھلیں جب سے کیا کیا نہ دیکھا
مگر دیکھنا جس کو چاہا نہ دیکھا

یہ تنہائ دشت غربت کی حد ہے
کبھی دھوپ میں اپنا سایا نہ دیکھا

بتوں کی جگہ اور عاشق کے دل میں
یہی سنگ و شیشہ میں یارا نہ دیکھا

اگر دید سے کام ہی کچھ نہ نکلا
تو کیا فائدہ جیسے دیکھا نہ دیکھا

لہو سے بھری اپنی چٹکی تو دھوئی
مگر تم نے میرا کلیجا نہ دیکھا

برا مان جاتیں وہ بیمار آنکھیں
یہ اچھا ہوا تجھ کو اچھا نہ دیکھا

مری چشم پر آب اب تم نے دیکھی
نہ کہنا کہ کوزے میں دریا نہ دیکھا

یہاں دیر میں کی زیارت بتوں کی
وہاں کچھ حرم میں نہ پایا نہ دیکھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse