یہی ہے ان کی نزاکت تو حال کیا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہی ہے ان کی نزاکت تو حال کیا ہوگا
by ریاض خیرآبادی

یہی ہے ان کی نزاکت تو حال کیا ہوگا
مجھے یہ ڈر ہے کہ وقت وصال کیا ہوگا

کسی کا سبزۂ تربت نہ ہو سکا پامال
خرام ناز سے دل پائمال کیا ہوگا

لحد پر آنے لگا کیوں پس فنا کوئی
مٹے ہوؤں کا کسی کو خیال کیا ہوگا

وہ سن ہی کیا ہے سمجھ ہو جو ایسی باتوں کی
وہ پوچھتے ہیں کہ روز وصال کیا ہوگا

نہ دل رہا نہ طبیعت رہی وہ پہلی سی
کسی کی بات کا ہم کو ملال کیا ہوگا

کنار شوق میں کیوں آئنے کی خواہش ہے
وہ بات ہی نہیں چہرہ نڈھال کیا ہوگا

اجل خدا کے لئے رحم کر حسینوں پر
ملا کے خاک میں حسن و جمال کیا ہوگا

مری خوشی کی انہیں کس لئے خوشی ہوگی
مرے ملال کا ان کو ملال کیا ہوگا

بتائیں کیا تمہیں کیوں کر گلے لگائیں گے
بتائیں کیا تمہیں روز وصال کیا ہوگا

شراب پینے کی عادت ہے مجھ کو چلو سے
مجھے ملا بھی تو جام سفال کیا ہوگا

ریاضؔ عمر تو گزری سیاہ کاری میں
خبر نہیں کہ ہمارا مآل کیا ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse