Jump to content

یہی نہ سمجھو فقط اک خطاب ہیں ہم تم

From Wikisource
یہی نہ سمجھو فقط اک خطاب ہیں ہم تم (1939)
by وحیدالدین احمد وحید
324136یہی نہ سمجھو فقط اک خطاب ہیں ہم تم1939وحیدالدین احمد وحید

یہی نہ سمجھو فقط اک خطاب ہیں ہم تم
کوئی تو بات ہے جس کے جواب ہیں ہم تم

ابھی تو صورت موج و حباب ہیں ہم تم
جب اس سے گزرے وہی ایک آب ہیں ہم تم

جو وہ ملے کہیں آفت زدے تو کہتے ہیں
زمانہ بھر ہے مزے میں خراب ہیں ہم تم

نہ پوچھے جائیں گے گر حسن و عشق کے جھگڑے
تو سب سے حشر کے دن بے حساب ہیں ہم تم


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).