یہی موقع ہے زمانے سے گزر جانے کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہی موقع ہے زمانے سے گزر جانے کا
by شاد عظیم آبادی

یہی موقع ہے زمانے سے گزر جانے کا
کیوں اجل کیا کیا ساماں مرے مر جانے کا

کیا کہوں نزع میں میں اپنی خموشی کا سبب
رنج ہے وقت کے بے کار گزر جانے کا

حسب معمول چڑھایا نہیں ناصح کوئی جام
یہ سبب بھی ہے مرے منہ کے اتر جانے کا

تجھ سے رخصت ہے مری جلد بس اے پیر مغاں
منتظر ہوں فقط اس جام کے بھر جانے کا

موتیوں کا تھا خزانہ مری چشم تر میں
غم ہے دل کو انہیں دانوں کے بکھر جانے کا

لے چلی موت بصد شوق ہمیں ساتھ اپنے
نہ ہوا جب کوئی ساماں ترے گھر جانے کا

تار ہوں آنسوؤں کے آہ کے ہرکارے ہوں
سلسلہ کوئی تو ان تک ہو خبر جانے کا

ناامیدی ہمیں پہنچاتی ہے پستی کی طرف
یہی زینہ تو ہے کوٹھے سے اتر جانے کا

دن بہ دن پاؤں کی طاقت میں کمی ہونے لگی
شادؔ ساماں کرو اس دشت سے گھر جانے کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse