یہی مسئلہ ہے جو زاہدو تو مجھے کچھ اس میں کلام ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہی مسئلہ ہے جو زاہدو تو مجھے کچھ اس میں کلام ہے
by حفیظ جونپوری

یہی مسئلہ ہے جو زاہدو تو مجھے کچھ اس میں کلام ہے
وہی شے حلال ہے خلد میں وہی میکدے میں حرام ہے

مری آنکھ میں جو سما گیا مرے دل میں جس کا مقام ہے
ابھی مجھ سے ہے وہ الگ تھلگ نہ پیام ہے نہ سلام ہے

یہی کہنا اس سے پیامبر کہ بس آخری یہ پیام ہے
جو ذرا بھی جانے میں دیر کی تو کسی کا کام تمام ہے

کبھی قطع کی مری گفتگو کبھی کہہ دیا مجھے کیا ہے تو
یہ بتا تو او بت جنگجو کوئی یہ بھی طرز کلام ہے

کوئی ذکر غیر کا یہ نہ تھا جسے آپ سن کے ہوئے خفا
مجھے اپنے بخت سے ہے گلہ مجھے اپنے دل سے کلام ہے

جو چلا تو بزم سرور میں جو رہا تو عالم نور میں
مرے دل میں کیف مدام ہے مرے سر میں گردش جام ہے

وہی شکوہ تجھ کو رقیب کا وہی رونا اپنے نصیب کا
یہ بتا تو او دل مبتلا تجھے اور بھی کوئی کام ہے

مرا نام لے کے نہ کوسیے یہ کہا تو ہنس کے وہ بول اٹھے
مجھے کیا خبر تھی زمانے میں فقط آپ ہی کا یہ نام ہے

مجھے کفر و دیں سے غرض نہیں کہ میں ایک بندۂ عشق ہوں
کوئی شیخ ہو کہ ہو برہمن مرا دور ہی سے سلام ہے

وہی آسمان ہے وہی زمیں مگر آنکھ اس کی جو پھر گئی
نہ وہ دن ہے اب نہ وہ رات ہے نہ وہ صبح ہے نہ وہ شام ہے

بہت اور ماہر فن ہیں یوں بہت اور اہل سخن ہیں یوں
مگر آ گیا جو پسند انہیں وہ حفیظؔ ہی کا کلام ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse