یہی تھا وقف تری محفل طرب کے لئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہی تھا وقف تری محفل طرب کے لئے
by عابد علی عابد

یہی تھا وقف تری محفل طرب کے لئے
چراغ دل کہ سلگتا ہے آج سب کے لئے

کبھی میں جرأت اظہار مدعا تو کروں
کوئی جواز تو ہو لطف بے سبب کے لئے

افق سے چاند کی چمپا کلی ابھرتی ہے
سجائے جاتے ہیں زیور نگار شب کے لئے

ترے گدا نے بھی ساغر کا نقرئی آنچل
کہیں سے مانگ لیا دختر عنب کے لئے

تمام عمر بہ فیض نگاہ لالہ رخاں
سند رہا ہوں اشارات چشم و لب کے لئے

چمن سے پھول کے دھوکے میں چن لئے شعلے
کف وفا کے لئے دامن طلب کے لئے

کہیں جو پرسش احوال پر وہ مائل ہوں
کہ ہم نے دل کو سنبھالا ہوا ہے جب کے لئے

مجھے خبر ہے بہت سے متاع ذوق نظر
دکان کاکل و رخسار و چشم و لب کے لئے

ستارہ صبح کا روشن تھا شام سے عابدؔ
یہی تھی موت حریفان بزم شب کے لئے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse