یہی تمنائے دل ہے ان کی جدھر کو رخ ہو ادھر کو چلئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہی تمنائے دل ہے ان کی جدھر کو رخ ہو ادھر کو چلئے
by پنڈت جواہر ناتھ ساقی

یہی تمنائے دل ہے ان کی جدھر کو رخ ہو ادھر کو چلئے
ہوا ہے گو اشتیاق بے حد جما کے پائے نظر کو چلئے

ہوئے ہیں محروم دید بے دل کیا تجاہل کا اس نے بسمل
وہ دل ربا بن گیا ہے قاتل کمر کو کس کے سفر کو چلئے

غرض تھی اظہار مدعا سے ستم کو کیا ہو گئے جو شاکی
وہ دیکھتے ہی بگڑ نہ جائیں بلانے اب نامہ بر کو چلئے

بنا ہے دم ساز کون ان کا پتہ نہیں مدتوں سے لگتا
یہ راز ہو جائے آشکارا کہیں سے لینے خبر کو چلئے

اگر ہے شوق جمال جاناں نہیں ہے کچھ پاس وضع موزوں
شکوہ تمکیں وداع کیجے منانے اس عشوہ گر کو چلئے

شہید ہے ساقیؔٔ دعا گو کشیدہ کیوں اس قدر ہوئے ہو
کبھی تو اے یار دیکھنے کو ذرا قتیل نظر کو چلئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse