یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا
by وحشت کلکتوی

یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا
گیا زیر زمیں جو کوئی زیر آسماں آیا

نہ ہو گرم اس قدر اے شمع اس میں تیرا کیا بگڑا
اگر جلنے کو اک پروانۂ آتش بجاں آیا

خدا جانے ملا کیا مجھ کو جا کر ان کی محفل میں
کہ باصد نامرادی بھی وہاں سے شادماں آیا

جمایا رنگ اپنا میں نے مٹ کر تیرے کوچے میں
یقین عشق میرا اب تو تجھ کو بدگماں آیا

نہ ہو آزردہ تو آزردگی کا کون موقع ہے
اگر محفل میں تیری وحشتؔ آزردہ جاں آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse