یک دو جام اور بھی دے تو ساقی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یک دو جام اور بھی دے تو ساقی
by مرزا جواں بخت جہاں دار

یک دو جام اور بھی دے تو ساقی
نہ رہے دل میں آرزو ساقی

میری تسکیں نہ ہوگی ساغر سے
منہ سے میرے لگا سبو ساقی

رات و دن مے کشوں کو رہتی ہے
تیری ہی یاد و جستجو ساقی

رند مفلس کو دے ہے زیاد شراب
بھائی مجھ کو تری یہ خو ساقی

آہ تجھ بن ہیں زار و نالاں ہم
بھولی مستی کی ہاو ہو ساقی

شیشۂ مے کی طرح سے ہم آج
رکھتے ہیں گریہ در گلو ساقی

کسی کے آگے مثل ساغر ہم
لاتے ہیں دست آرزو ساقی

لاتے ہیں مثل شیشۂ بادہ
تیرے ہی آگے سرفرو ساقی

رو نہیں اس کو بزم مستاں میں
جس کے تئیں تو نہ دیوے رو ساقی

دے جہاں دارؔ کو وہ مے جس کا
ہووے گل کا سا رنگ و بو ساقی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse