یک بیک جاتا رہا دلبر جو گھر آیا ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یک بیک جاتا رہا دلبر جو گھر آیا ہوا
by منتظر لکھنوی

یک بیک جاتا رہا دلبر جو گھر آیا ہوا
دوڑا دوڑا میں پھرا گلیوں میں گھبرایا ہوا

جان کیا جلاد کی لیوے دوبارا حکم قتل
منہ سے اس ظالم نے جو یکبار فرمایا ہوا

ہجر میں اس گل کے یہ صورت ہماری بن گئی
رنگ بھی ہے زرد اور چہرہ بھی مرجھایا ہوا

خانۂ دل سے کریں غم یار کا کس طرح دور
در سے اٹھتا ہے محصل کوئی بٹھلایا ہوا

کیا غضب ٹوٹے ہے دیکھیں عاشقوں کی جان پر
آج کچھ غصہ میں ہے بیٹھا وہ جھنجھلایا ہوا

یوں کیا برباد اس گل نے دل پژمردہ کو
پھینک دے ہے پھول جیسے کوئی کملایا ہوا

منتظرؔ کا جی جلا دے کیوں نہ ہر اک بات میں
ہے وہ ظالم شعلہ خو غیروں کا بھڑکایا ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse