یک بہ یک ہوگی سیاہی اس قدر جاتی رہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یک بہ یک ہوگی سیاہی اس قدر جاتی رہی
by نظیر اکبر آبادی

یک بہ یک ہوگی سیاہی اس قدر جاتی رہی
کیا کہیں گویا سیاہی یک سر مو بھی نہ تھی

گو سفیدی مو کی یوں روشن ہے جوں آب حیات
لیکن اپنی تو اسی ظلمات سے تھی زندگی

دم بدم بزم سرور و ہر گھڑی سیر چمن
عشرت و عیش و نشاط و خرمی و تازگی

خندۂ شادی سے ہرگز لب نہ ہوتے تھے بہم
ساغر و مینا سرود و رقص و خوش طبعی ہنسی

جام دیتا تھا ادھر ساقی بہ منت ہاتھ جوڑ
اس طرف کیا کیا لگاوٹ دلبروں کی تھی نئی

گل بدن کرتے تھے کس کس طور اظہار اشتیاق
غنچہ لب ملتے تھے سو سو دل میں رکھ کر بے کلی

کوئی دیتا تھا محبت سے گلے میں ہاتھ ڈال
کوئی دیتا تھا زبردستی سے بوسہ ہر گھڑی

کوئی دیتا تھا محبت سے گلے میں ہاتھ ڈال
کوئی دیتا تھا زبردستی سے بوسہ ہر گھڑی

جس طرف تھے دیکھتے عیش و طرب کا جوش تھا
مستی و رندی ہوس بازی و بے اندیشگی

آن کر مو کی سفیدی نے یہ کیں بربادیاں
کھول دیں جتنی بندھیں تھیں وہ ہوائیں عیش کی

قد میں خم آنکھوں میں نم چہرے پہ جھری رنگ زرد
سر سے پا تک سخت ناخوش منظری بد ہیئتی

کیا تماشے انقلاب چرخ کے کہئے نظیرؔ
دم میں وہ رونق تھی اور ایک دم میں یہ بے رونقی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse