یوں ہی گر ہر سانس میں تھوڑی کمی ہو جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں ہی گر ہر سانس میں تھوڑی کمی ہو جائے گی
by جگت موہن لال رواں

یوں ہی گر ہر سانس میں تھوڑی کمی ہو جائے گی
ختم رفتہ رفتہ اک دن زندگی ہو جائے گی

دیکھنے والے فقط تصویر ظاہر پر نہ جا
ہر نفس کے ساتھ دنیا دوسری ہو جائے گی

گر یہی فصل جنوں زا ہے یہی ابر بہار
عظمت توبہ نثار میکشی ہو جائے گی

مرگ بے ہنگام کہتے ہیں جسے آج اہل درد
کل یہی صورت بدل کر زندگی ہو جائے گی

ذکر ہے زنداں میں وہ گلزار پر بجلی گری
آج میرے آشیاں میں روشنی ہو جائے گی

سجدہ گاہ عام پر سجدے سے کچھ حاصل نہیں
مفت آلودہ جبین بندگی ہو جائے گی

ختم ہے شب چہرۂ مشرق سے اٹھتی ہے نقاب
دم زدن میں روشنی ہی روشنی ہو جائے گی

متصل ہیں ضعف و قوت کی حدیں ہاں ہوشیار
ورنہ اس ترک خودی میں خودکشی ہو جائے گی

زخم بھی تازہ ہے اور دل بھی نہیں مانوس درد
رفتہ رفتہ یوں ہی عادت صبر کی ہو جائے گی

شمع سا جب شام ہی سے ہے گداز دل رواںؔ
صبح تک کیا جانے کیا حالت تری ہو جائے گی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse