یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا
by عبدالرحمان احسان دہلوی

یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا
الٰہی کبھو یاں بھی اسلام ہوگا

کہیں کام میں وہ تو خود کام ہوگا
یہاں کام آخر ہے واں کام ہوگا

یہی دل اگر ہے یہی بے قراری
تہ خاک بھی خاک آرام ہوگا

صنم تین پانچ آپ کا چار دن ہے
سدا ایک اللہ کا نام ہوگا

یہ مژگاں وہ ہیں جن کی کاوش سے اک دن
مشبک جگر مثل بادام ہوگا

بتو جب کہ آغاز الفت ہے یہ کچھ
خدا جانے کیا اس کا انجام ہوگا

دعا کے عوض گالیاں اور تو کیا
عنایات یہی مجھ کو انعام ہوگا

یہ دو اک بلا ہیں گرفتار ان کا
کوئی صبح ہوگا کوئی شام ہوگا

یہی صبح اور شام تک گر عمل ہے
عمل تیری زلفوں کا تا شام ہوگا

میں وہ ناتواں ہوں اگر ذبح کیجے
نہ اک نالہ مجھ سے سرانجام ہوگا

جو بسمل تو کرتا ہے بسم اللہ اے شوخ
ترے کام میں میرا بھی کام ہوگا

مری لگ رہیں چھت سے آنکھیں ہیں دیکھو
مشرف کب اس سے لب بام ہوگا

کبھو تو بھی ہوگا مسلمان اے بت
سدا تیرا جھوٹا ہی پیغام ہوگا

شکار اجل ہوں گے اک روز ہم سب
ہمیشہ نہ رستم نہ یاں سام ہوگا

کہاں ہے وہ صید افگنی گور میں آہ
خدا جانے کیا حال بہرام ہوگا

نہ سن میری احساںؔ مبارک تجھے عشق
مجھے کیا ترا نام بدنام ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse