یوں ہی الجھی رہنے دو کیوں آفت سر پر لاتے ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں ہی الجھی رہنے دو کیوں آفت سر پر لاتے ہو
by امداد امام اثر

یوں ہی الجھی رہنے دو کیوں آفت سر پر لاتے ہو
دل کی الجھن بڑھتی ہے جب زلفوں کو سلجھاتے ہو

چھپ چھپ کر تم رات کو صاحب غیروں کے گھر جاتے ہو
کیسی ہے یہ بات کہو تو کیوں کر منہ دکھلاتے ہو

سنتے ہو کب بات کسی کی اپنی ہٹ پر رہتے ہو
حضرت دل تم اپنے کئے پر آخر کو پچھتاتے ہو

مدت پر تو آئے ہو ہم دیکھ لیں تم کو جی بھر کے
آئے ہو تو ٹھہرو صاحب روز یہاں کیا آتے ہو

کیسا آنا کیسا جانا میرے گھر کیا آؤ گے
غیروں کے گھر جانے سے تم فرصت کس دن پاتے ہو

آنکھیں جھپکی جاتی ہیں متوالی کی سی صورت ہے
جاگے کس کی صحبت میں جو نیند کے اتنے ماتے ہو

دل سے اثرؔ کیا کہتے ہو ہے جان کا سودا عشق بتاں
تم بھی تو دیوانے ہو دیوانے کو سمجھاتے ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse