یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور
یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور
یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور
دیوانہ میں نہیں کہ انا لیلیٰ لب پہ آئے
باتیں خلافِ وضع ہیں اہلِ ادب سے دور
مجھ کو سنا کے کہتے ہیں ہمدم سے، یاد ہے؟
اک آدمی کو چاہتے تھے ہم بھی اب سے دور
جو لطف میں بھی پاس پھٹکنے نہ دے کبھی
رکھیو الٰہی! ایسے کے مجھ کو غضب سے دور
کیوں کر میں انجمن میں تمہاری شریک ہوں
اربابِ رنج رہتے ہیں اہلِ طرب سے دور
ہم سے اسے معاملہ تھا جان و جسم کا
ہرگز ملا نہ گاہ، ہوا ہائے جب سے دور
تو بھی جو میرے پاس نہ آئے تو کیا کروں
تیرے ہی پاس سے تو میں رہتا ہوں سب سے دور
میں غیرِ بوالہوس نہیں ڈرتے ہو کس لئے
مجھ کو نہ رکھو بوسے میں تم لب کو لب سے دور
بوس و کنار کی نہ کروں گا ہوس کبھی
یہ خواہشیں ہیں عاشقِ حسرت طلب سے دور
آغازِ عمر ہی میں ہے ہم کو خیالِ حج
دلی جو شیفتہ ہے دیارِ عرب سے دور
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |