یوں وہ پیغام سے تو آئے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں وہ پیغام سے تو آئے گا
by داغ دہلوی

یوں وہ پیغام سے تو آئے گا
غیر کے نام سے تو آئے گا

شب ہجراں سے موت بہتر ہے
خواب آرام سے تو آئے گا

یوں نہ آئے گا ہاتھ گر وہ صنم
ترک‌ اسلام سے تو آئے گا

لے ہی تو آئیں گے اسے ہمدم
میرے ہی نام سے تو آئے گا

ساقیا مجھ سے بادہ کش کو سرور
ایک ہی جام سے تو آئے گا

دل کا آنا ہے کام سے جانا
جائے گا کام سے تو آئے گا

کبھی اپنا بھی روز خوش اے داغؔ
دور ایام سے تو آئے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse