یوں نظم جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں نظم جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا
by فانی بدایونی

یوں نظم جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا
ایسا بھی ترے حسن کا عالم نہ ہوا تھا

پھر چھیڑ دیا وسعت محشر کی فضا نے
سودا ترے وحشی کا ابھی کم نہ ہوا تھا

یا عشرت دو روزہ تھا یا حسرت دیروز
وہ لمحۂ ہستی جو ابھی غم نہ ہوا تھا

صد حیف وہ گل ہو کف گلچیں میں جو اب تک
آزردۂ آویزش شبنم نہ ہوا تھا

قاتل ہی مرا کیوں اسے کہتا ہے زمانہ
مانا وہ شریک صف ماتم نہ ہوا تھا

راز آج مرے دم سے ہوا راز محبت
کچھ راز نہ تھا جب کوئی محرم نہ ہوا تھا

پاتے ہی خجل رحم کا دریا امڈ آیا
پردہ مری آنکھوں کا ابھی نم نہ ہوا تھا

رسوا نہ کر اس سوز کو اے شمع لب گور
جو واقف دل سوزی ہمدم نہ ہوا تھا

گھر خیر سے تقدیر نے ویرانہ بنایا
سامان جنوں مجھ سے فراہم نہ ہوا تھا

اک کفر سراپا نے کیا حشر کا قائل
میں معتقد حشر مجسم نہ ہوا تھا

ہر دل میں نئی شان تجلی ہے کہ فانیؔ
نشتر ہے وہ انداز جو مرہم نہ ہوا تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse