یوں مری طبع سے ہوتے ہیں معانی پیدا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں مری طبع سے ہوتے ہیں معانی پیدا
by اکبر الہ آبادی

یوں مری طبع سے ہوتے ہیں معانی پیدا
جیسے ساون کی گھٹاؤں سے ہو پانی پیدا

کیا غضب ہے نگہ مست مس بادہ فروش
شیخ فانی میں ہوا رنگ جوانی پیدا

یہ جوانی ہے کہ پاتا ہے جنوں جس سے ظہور
یہ نہ سمجھو کہ جنوں سے ہے جوانی پیدا

بے خودی میں تو یہ جھگڑے نہیں رہتے اے ہوش
تو نے کر رکھا ہے اک عالم فانی پیدا

کوئی موقع نکل آئے کہ بس آنکھیں مل جائیں
راہیں پھر آپ ہی کر لے گی جوانی پیدا

ہر تعلق مرا سرمایہ ہے اک ناول کا
میری ہر رات سے ہے ایک کہانی پیدا

جنگ ہے جرم محبت ہے خلاف تہذیب
ہو چکا ولولۂ عہد جوانی پیدا

کھو گئی ہند کی فردوس نشانی اکبرؔ
کاش ہو جائے کوئی ملٹنؔ ثانی پیدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse