یوں عیاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں عیاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
by قربان علی سالک بیگ

یوں عیاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
کہ نہاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

نہیں وادید ماسوا درکار
بے نشاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

غیر کی واں نظر نہیں جاتی
اب جہاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

دیدنی کچھ نہیں زمانے میں
جاوداں تجھ کو دیکھتے ہیں

جان دینے پہ کیوں نہ ہوں راضی
جاں ستاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

یوں کریں ہم کو پائمال عدو
آسماں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

یوں وہ گل گشت کو چلے آئیں
گلستاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

آج اپنا کہا سنا ہو معاف
ناگہاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

آرزو گو کہ ایک حرف ہے تو
داستاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

نہ کریں اب کلیم سے بھی کلام
ہم زباں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

ہم اور اغیار سے گلا تیرا
بد گماں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

اور کرنا ہے چرخ کو دشمن
مہرباں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

اس کا آنا یقیں ہے کیا سالکؔ
نگراں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse