یوں دیکھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں دیکھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش
by مرزا محمد رفیع سودا

یوں دیکھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش
دریا میں ہو جس طرح سے گرداب کی گردش

مرتا ہوں ترے واسطے روتا ہوں زبس یار
ہے سیل مری چشم میں گرداب کی گردش

پھر جاتی ہیں اس طرح سے اک پل میں وہ انکھیاں
جوں بزم میں ہو جام مئے ناب کی گردش

ازبسکہ ہے آنکھوں میں خمار اس گھڑی ساقی
مے مانگے ہے تجھ سے جو ہر احباب کی گردش

گو خاک ہوا تو بھی پھرا بن کے بگولا
ہو کر نہ گئی عاشق بیتاب کی گردش

جنس خرد و صبر بن اس دل کو ہو کیا چین
مفلس کو بری ہوتی ہے اسباب کی گردش

دل زلف و رخ یار میں سوداؔ نہ پھرے کیوں
خوش آئے ہے اس کو شب مہتاب کی گردش

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse