یوں دور دور دل سے ہو ہو کے دل نشیں بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں دور دور دل سے ہو ہو کے دل نشیں بھی
by آرزو لکھنوی

یوں دور دور دل سے ہو ہو کے دل نشیں بھی
ہیں تو اسی جہاں میں ملتے نہیں کہیں بھی

کم ایک قبر سے ہے مجھ کو یہ کل زمیں بھی
مر رہنے کا ٹھکانا ملتا نہیں کہیں بھی

طوفان بحر خود ہیں بڑھتی امنگیں دل کی
کشتی قرار لے گی ہو کر نہ تہہ نشیں بھی

امکاں کی حد کے اندر کوشش کی حد سے باہر
دل جس کو ڈھونڈھتا ہے وہ ہے بھی اور نہیں بھی

امید دل کی فطرت ہے بے نیاز تسکیں
کم ہو نہ بے قراری آئے اگر یقیں بھی

بیم و رجا سے دل میں دریا کا جزر و مد ہے
ساحل نواز موجیں آئیں بھی اور گئیں بھی

یہ ملتفت نگاہیں شیوہ وغا ہے جن کا
ہیں موجب سکوں بھی ہنگامہ آفریں بھی

کر پہلے دل پہ قابو جامے کی پھر خبر لے
دامن بچانے والے جاتی ہے آستیں بھی

خطرے میں جان جس سے وہ جان سے بھی پیارا
رنگیں عذار شعلہ قاتل بھی ہے حسیں بھی

سرگشتۂ محبت دار محن میں پھر کر
دیکھ آئے گوشہ گوشہ راحت نہیں کہیں بھی

نیرنگیٔ تلون لاحل سا اک معمہ
سمجھے جو تیرے تیور پڑھ لے خط جبیں بھی

شان غرور ان کی تصویر اک رخی ہے
اور آرزو کی نظریں شیدا بھی ہیں حسیں بھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse