یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے
by رجب علی بیگ سرور

یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے
چاہنے والا جو چاہو تو نا اصلا نکلے

جی میں ہے چیر کے سینہ میں نکالوں دل کو
تا کسی ڈھب سے تو پہلو کا یہ کانٹا نکلے

مرض عشق یہ مہلک ہے کہ اس کے ڈر سے
چرخ چارم یہ جو ڈھونڈو تو مسیحا نکلے

ہے یقیں گور پہ گر میری تو آ جاوے کبھی
دید کو تیری مرا قبر سے مردا نکلے

جاں کنی میں ہے تڑپتا دل بیتاب سرورؔ
میرے عیسیٰ سے کہو یہاں بھی کبھی آ نکلے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse