یوں تو نہ تیرے جسم میں ہیں زینہار ہاتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں تو نہ تیرے جسم میں ہیں زینہار ہاتھ
by نظم طباطبائی

یوں تو نہ تیرے جسم میں ہیں زینہار ہاتھ
دینے کے اے کریم مگر ہیں ہزار ہاتھ

انگڑائیوں میں پھیلتے ہیں بار بار ہاتھ
شیشہ کی سمت بڑھتے ہیں بے اختیار ہاتھ

ڈوبے ہیں ترک سعی سے افسوس تو یہ ہے
ساحل تھا ہاتھ بھر پہ لگاتے جو چار ہاتھ

آتی ہے جب نسیم تو کہتی ہے موج بحر
یوں آبرو سمیٹ اگر ہوں ہزار ہاتھ

درپئے ہیں میرے قتل کے احباب اور میں
خوش ہوں کہ میرے خون میں رنگتے ہیں یار ہاتھ

دامن کشاں چلی ہے بدن سے نکل کے روح
کھنچتے ہیں پھیلتے ہیں جو یوں بار بار ہاتھ

مٹتا نہیں نوشتۂ قسمت کسی طرح
پتھر سے سر کو پھوڑ کہ زانو پہ مار ہاتھ

ساقی سنبھالنا کہ ہے لبریز جام مے
لغزش ہے میرے پاؤں میں اور رعشہ دار ہاتھ

مطرب سے پوچھ مسئلہ جبر و اختیار
کیا تال سم پہ اٹھتے ہیں بے اختیار ہاتھ

میں اور ہوں علائق دنیا کے دام میں
میرا نہ ایک ہاتھ نہ اس کے ہزار ہاتھ

اے نظمؔ وصل میں بھی رہا تو نہ چین سے
دل کو ہوا قرار تو ہے بے قرار ہاتھ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse